ڈھائی سیر آٹا
ڈھائی سیر آٹا
پروائی چل رہی تھی اس لیے مولا کو بائی نے پکڑ رکھا تھا اور وہ آٹھ دس روز سے کام پر نہیں جا سکا تھا۔ دو تین روز تک جو دو چار پیسے جمع تھے، وہ خرچ ہوئے اور پھر ادھار پرکام چلتارہا۔ دو چار روز کے بعد بنیا بھی حیلے حوالے کرنے لگا۔ مجبوراً ایک دن مولا ٹانگ میں ذرا آرام پاکر صبح تڑکے ٹوکری لے کرمزدوروں کے بازار گیا۔ جن کاریگروں کے ساتھ کام کر چکا تھا ، ان میں سے ایک نے جس کا کام لگا ہوا تھا، اس کو ساتھ لے لیا۔ یہ دن بھراینٹ گارا ڈھوتارہا۔ شام کو ساڑھے چار آنے پیسے ملے جسے لے کر گھر چلا۔ راستے میں ایک آنہ بنیے کو قرض کا اداکیا، ایک آنہ مکان کے کرایہ کے لیے رکھ لیا اور ایک پیسہ کل کے چنیے کے لیے بچا لیا۔ باقی بچے نو پیسے۔ اس میں سے ایک پیسے کے آلو ، ایک کا باجرے کا آٹا، پانچ پیسے کے ڈیڑھ سیرچاول اور ایک پیسے کی دال، ایک پیسے کی لکڑی لے کر ایک لمبی سی گلی میں گھس گیا جو آگے چل کر اتنی تنگ ہو گئی تھی کہ وہاں ابھی سے اندھیرا تھا۔ اس گلی میں برابر کئی کئی کوٹھڑیاں بنی تھیں۔ دو ایک سے دھواں نکل رہا تھا جو ٹھنڈا ہو کر گلی میں بھر رہا تھا۔ ان میں سے ایک کوٹھڑی کے سامنے مولا کی بیوی منی جس سے شادی تو نہیں ہوئی تھی مگر پندرہ برس سے تعلقات میاں بیوی ہی کے ایسے تھے، دو لڑکیاں اور ان دونوں سے چھوٹے دو لڑکے جاڑے کے مارے پاس پاس بیٹھے مولا کا انتظار کررہے تھے۔ سبھوں نے خوش ہوکر اس کو گھیر لیا۔ یہ تھکا ہوا بہت تھا۔ آتے ہی ٹاٹ پر لیٹ گیا اور پوٹلی رکھ کر بولا:
’’سب لیتاآیا ہوں‘‘
بیوی چولہے کے پاس گئی جو اس کوٹھڑی میں ایک طرف بنا ہوا تھا، آگ سلگائی اور دال چاول پکنے کو چڑھا دیے۔ لڑکے اور لڑکیاں چولہے کو گھیر کر بیٹھ گئے اور دال چاول پکنے کی دل خوش کن کھدر کھدر سننے لگے۔ ان لوگوں کے لیے اس سے بہتر اورکوئی راگنی نہیں ہو سکتی تھی۔
کمرے میں سیل اور میلے کپڑوں کی بوپھیلی ہوئی تھی۔ اب وہاں دھواں بھی بھرنے لگا مگرسب کادھیان چولہے کی طرف تھا۔ لڑکے بھوک سے پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ دال چاول جلد سے جلد پک جائیں، اس لیے وہ باربار بہت سی لکڑی چولہے میں لگا دیتے۔ یہ دیکھ کر ان کی ماں ڈانٹ بتاتی۔
’’کم بختو! کل کھانا کیسے پکے گا؟‘‘
بڑی لڑکی جس کی پلکیں بال خورے نے غائب کر دی تھیں، چولہے کے پاس بیٹھی برابر بدن کھجلاتی جاتی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد لکڑی کی ڈوئی سے دال اور چاول نکال کر چٹکی سے ملتی تھی۔ اس وقت لڑکے پوچھتے تھے۔
’’کتنی دیر ہے؟‘‘
’’بس تھوڑی دیر او ر ہے‘‘۔
یہی جواب آدھ گھنٹہ تک چلتارہا۔ مولا ایک پرانی دری اوڑھے جس میں سینکڑوں چھید تھے، ٹاٹ پر چپ چاپ لیٹا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بولا:
’’جیسے نیند آرہی ہے‘‘۔
اتنے میں کسی کے چیخنے اور رونے کی آواز آنے لگی۔ کوئی مزدور تھا جو تاڑی پی کر اپنی بیوی کو مارتا تھا۔ جب غل غپاڑہ زیادہ ہوتا تھا تو آس پاس کے لوگ جا کر معاملہ رفع دفع کرا دیتے تھے۔ اس وقت یہ غل سن کی منی بولی:
’’ان لوگوں کے یہاں روز روز یہی رہتا ہے۔ نہ معلوم کیسے کمینے ہیں‘‘۔
مولا: ’’ہونہہ۔۔۔ چاول گلے نہیں اب تک؟‘‘
منی نے دیکھا تو چاول گل گئے تھے۔ اس نے اتار کر ایک طرف رکھ دیے۔ ہانڈی بند تھی مگر ابال میں ہانڈی کے کگروں پر کچھ چاول آگئے تھے۔ چھوٹے لڑکے ببو نے ان میں سے دو تین چاول پونچھ کر کھالیے۔ دوسرا لڑکا منو فوراً بولا:
’’ہونہہ۔ میں بھی ‘‘۔
اس نے اور زیادہ کھالیے ۔ اس پردونوں میںلڑائی ہونے ہی والی تھی کہ منی نے دونوں کو ڈانٹا:
’’کم بختوں میں ذرا صبرنہیں۔ میں کہتی ہوں۔۔۔۔‘‘
تھوڑی دیرلڑکے منی کی بات پوری ہونے کے منتظر رہے۔ جب وہ کچھ نہیں بولی تو پھرکھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب دال کاسب کوبڑی بے صبری سے انتظارتھا۔ آخر ایک لڑکی بولی:
’’اماں اب گھونٹ دو‘‘۔
ماں نے دال کو دیکھا تووہ تھوڑی بہت گل گئی تھی۔ زائد انتظارکون کرتا۔ اس نے دال گھونٹ کرنمک ڈالا اوراتارلی پھرتین تامچینی کی پلیٹیں جن کی چینی تقریباً بالکل اڑ چکی تھی اورایک مٹی کی رکابی سامنے رکھی۔ پہلے ایک بڑی پلیٹ میں چاول نکالے اور اس پردال ڈال کر مولا کے سامنے رکھ دیے۔ مولا بہت بے صبری سے کھانے لگا۔ سب بچے اب ٹکٹکی باندھ کر منی کے ہاتھوں کی حرکت دیکھ رہے تھے۔ اس نے مٹی کی تھالی میں چاول نکال کر دونوں لڑکیوں کے بیچ میں رکھ دیے اور پھر تامچینی کی پلیٹوں میں برابر برابر چاول نکالے ، اس پر دال ڈالنے لگی۔
ببو:’’منوکی پلیٹ میں اتنا اور ہماری پلیٹ میں اتنا‘‘۔
منی نے تھوڑی سی دال اس کی پلیٹ میں اورڈال دی۔
منو:’’اماں ہم بھی‘‘۔
ماں نے دو چار چاول اس کی پلیٹ میں بھی ڈال دئیے اور پھر باقی چاولوں کو دال کی ہانڈی میں الٹ کرکھانے لگی۔ ابھی چولہے میں کچھ کوئلے باقی تھے جن کی ہلکی ہلکی روشنی میں ان لوگوں کے چہرے اور چلتے ہوئے جبڑے دکھائی دے رہے تھے۔ چھوٹے لڑکے کھاتے جاتے اور پلیٹ کی طرف دیکھ کر اندازہ کرتے جاتے کہ ابھی اتنا اور ہے، اتنا اور ہے۔ آخر منو اپنی پلیٹ پونچھ کر بولا:
’’بس کھا چکے‘‘۔
مولا بھی چاول ختم کرچکا اور بولا:
’’چاولوں میں خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ ذرا سے کھالو اور پیٹ بھر گیا اور روٹی کا یہ ہے کہ سیر بھر آٹے کی ہو توکچھ نہیں اور دو سیر ہو تو کچھ نہیں‘‘۔
ببو:’’اماں! صبح کیا پکے گا؟‘‘
اماں:’’میں کہتی ہوں ان لوگوں کی نیت کبھی نہیں بھرتی۔ ابھی کھا چکا ہے اور ابھی پوچھ رہا ہے کہ کل کیا پکے گا‘‘۔
منی نے بانس کے پلنگ کے نیچے سے جو کوٹھڑی کا چوتھائی حصہ گھیرے ہوئے تھا، ایک پان دان نکالا، جس کا پیندا گھس گیاتھا اور سب کلھیاں ایک دفتی پر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ پان دان منی کی ماں کا تھا اور اس کو بہت پیارا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ میں کسی گھر میںاوپر کا کام کاج کرنے کو نوکر ہو جائوں تو سب سے پہلے اسی کو ٹھیک کرائوں گی۔ منی نے ایک پان کے چار ٹکڑے کیے۔ ایک خود کھایا، ایک مولا کو دیا اور دونوں لڑکیوں کو۔ پھر کوٹھڑی کے بیچ میں ایک ٹاٹ کا پردہ ڈال دیا جس سے اس کے دو حصے ہو گئے۔ ایک طرف پلنگ ہو گیا اور دوسری طرف ٹاٹ کا فرش۔ پلنگ پر منی اور مولا لیٹ گئے اور ٹاٹ پر دونوں لڑکے اور دونوں لڑکیاں۔ سردی تیز ہو گئی تھی۔ مولا اور منی نے تو وہی دری اوڑھ لی۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی نے موٹی چادر اور کسی نے ٹاٹ کا ٹکڑا دہرا کر کے اوڑھ لیا اور پھر چڑیا کے بچوں کی طرح ایک دوسرے سے چپک کر لیٹ رہے۔ کوٹھڑی کے دروازے سے ٹھنڈی ہوا آرہی تھی، اس لیے مولا نے اٹھ کر اس کو بند کردیا، ہوا کی آمدورفت بند ہوگئی اور کوٹھڑی میں حبس کی وجہ سے گرمی ہو گئی۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد منی بولی:
’’آج منشی جی پھر آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ نواب صاحب نے حکم دیاہے کہ جس پر کرایہ چڑھا ہو، اسکو کوٹھڑی سے فوراً نکال دو‘‘۔
مولا:’’نکال دیں گے، نکال دیں گے، جب سنو، یہی ہے۔ آئیں، آکر نکالیں۔ ہم جاڑوں میں بچوں کو لے کر کہاں جائیں۔ ہو اکریں وہ بڑے آدمی۔ ہم تو نہیں نکلیں گے۔ کہہ دو جب کرایہ جمع ہو جائے گا۔ دے دیں گے۔ ضروردیں گے۔ مرجائیں تو بات دوسری ہے۔ بڑے آئے ہیں نکالنے والے‘‘۔
اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے خاموشی ہو گئی پھر مولا بولا:
’’منشی جی کے یہاں کی نوکری کاپتہ چلا‘‘۔
منی:’’وہ کہتے ہیں چھوٹی لڑکی سے میرا کام نہیں چلے گا۔ ایسی لڑکی ہو جو جھاڑو بہارو کرے اور دو گھڑے پانی اٹھا کر رکھ دے‘‘۔
اس کے بعد منی ذرا رکی پھر آواز نیچی کرکے بولی:
’’میں کہتی ہوں کہ جوان لڑکی کو کیسے بھیج دوں۔ اس موئی کا بھی دیدہ ہوائی ہے۔ پانی بھرنے جاتی ہے توٹھٹھا کرتی ہوئی‘‘۔
مولا:’’جائے گی تو حرام زادی اپنے سے جائے گی۔ ایک چلی گئی توکیا کرلیا؟ لڑکا ہوتی تو چار آنہ روزکما لاتی‘‘۔
مولا کی بڑی لڑکی بھاگ گئی تھی اور سال بھر سے پتہ نہیں تھا۔
منی:’’کیاکرلیا؟ موئی تھی ہی ایسی۔ایسی نہ ہوتی تو جاتی کیوں؟ لڑکے کب اچھے نکلتے ہیں؟ کس نے لاکرماں باپ کو کھلایا ہے؟ ادھرکمانے کے قابل ہوئے، ادھر چل دئیے۔ بھورے کو دیکھو۔ ٹھیلا چلاتاہے۔ دس آنے روز پاتاہے اور سب اڑا دیتا ہے‘‘۔
منی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہو گئی اور پھر گہری خاموشی چھا گئی جس کو کبھی کبھی ان لوگوں کی کھانسی کی آواز توڑدیتی تھی۔ ابھی آٹھ ہی بجے تھے۔ بازار میں چہل پہل تھی مگر یہاں سوتاپڑ گیا۔
جب مولاکی آنکھ کھلی تواس نے منی کو جاگتا پایا۔ وہ پانچ منٹ تک یونہی پڑا رہا ، پھرکراہتا ہوا اٹھا اور بولا:
’’سردی کے مارے جان نکلی جاتی ہے۔ بدن جیسے تختہ ہوگیا۔ بیڑی کہاں ہے؟‘‘
منی نے اٹھ کر ایک کونے سے ایک بیڑی کا بنڈل اور دیا سلائی کی ڈبیہ نکال کر دی۔ مولا نے ایک بیڑی سلگائی اور پینے لگا۔ بیڑی جب تک چٹکی سے پکڑنے کے قابل رہی اس نے ہاتھ سے نہیں چھوڑی، پھر پلنگ سے اٹھا اور لوٹا لے کے باہر چلا گیا۔ پندرہ منٹ کے بعد سردی سے کانپتا ہوا اندر آیا اور لوٹا رکھ کر بولا:
’’ ایک بیڑی اور۔ اتنا دن چڑھ آیا، دھوپ کا پتہ نہیں‘‘۔
مولا نے ایک بیڑی اور سلگائی پھر ٹوکری اٹھا کر بیڑی پیتا ہوا باہر چلا گیا۔
مولا کے جانے کے دو گھنٹے بعد منی لڑکوں اور لڑکیوں کو لے کرباہر نکلی اور کوٹھڑی میں کنڈی لگا کر ٹہلنے چلی۔ کچھ دور پر دوسرے مزدوروں کی عورتیں دھوپ میں بیٹھی بک بک کررہی تھیں، یہ جا کران میں شریک ہوگئی۔ لڑکے اور چھوٹی لڑکی آنکھ بچا کر ادھر ادھرہورہے۔
تین چار گھنٹے کے بعد منو آیا اور ماں سے کہنے لگا:
’’ماں رے! بھوک لگی ہے‘‘۔
منی ویسے ہی باتوں میں مشغول رہی۔ گویا یہ سننے والی بات ہی نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ببو آیا اور اس نے بھی اسی فقرے کو سنایا مگر منی نے ادھر بھی توجہ نہ کی۔ اس وقت وہ کسی شریف گھرانے کی عورتوں کی بدچلنی بہت جوش و خروش سے بیان کررہی تھی۔ اس جوش میں یہ فخر پوشیدہ تھا کہ چھوٹی ذات سہی مگر میں ایسی نہیں ہوں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا یا دونوں کے دونوں اپنی صدا لگا دیتے۔ اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اب چھوٹی لڑکی بھی کہیں سے آئی اور ماں کے پاس بیٹھ گئی،پھر چپکے سے بولی:
’’اما ں چلو‘‘۔
منی:’’ابھی سویرا ہے۔ ذرا ٹھہرو‘‘۔
دس منٹ اور گزرے اب تو ببو ماں کا کندھا پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور رونی آواز سے رٹ لگا دی ۔
’’کھانا دو۔ کھانا دو۔ کھانا دو‘‘۔
منی تھوڑی دیر تک یہ ریں ریں سنتی رہی، پھر اس کو ڈانٹ دیا جس پر ببو بھوں بھوں رونے لگا۔ آخر یہ بڑبڑائی ہوئی اٹھی۔
’’میں کہتی ہوں۔ یہ سب غارت ہوں یا میں غارت ہوں، زندگی دوبھر ہے‘‘۔
منی نے کوٹھڑی میں آکر آگ سلگائی اور باجرے کے آٹے کی پانچ ٹکیاں پکائیں۔ دو چھوٹی اور تین بڑی، ان پر ذرا ذرا سا گڑ رکھ کر چھوٹی دونوں لڑکوں کو دیں اور بڑی ایک خود لی اور دو دونوں لڑکیوں کو دیں۔ ان لوگوں کا کھانا تین چار منٹ کے اندر اندر ہی ختم ہوگیا اور پھر یہ سب لوگ گھومنے چلے گئے۔
شام کو مولا جب مزدوری کے پیسے لیے پلٹ رہا تھا تو اس کی نگاہ گلی کے کونے پر پڑی۔ دیکھا تو دو ڈھائی سیر آٹا یوں ہی پڑا ہوا ہے۔ اس نے قریب جا کر آٹے کو چٹکی میں اٹھا لیا۔ گویا یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ آنکھیں دھوکا تو نہیں دے رہی ہیں۔ جب یقین آگیا تو متحیر کھڑا رہ گیا۔ دل کہتا تھا کہ اٹھا لے چلو۔ مگر ایک تو یہ ڈر تھا کہ شاید کوئی کچھ کہے اور دوسری یہ جھجک کہ اس کے ساتھی مزدور بھی پیچھے آ رہے ہوں گے۔ اگر وہ مجھے آٹا اٹھاتے دیکھیں گے تو کیا کہیںگے۔ آخر اٹھانے کی ہمت نہیں پڑی اور یہ چل کھڑا ہوا مگر ہر قدم پر رفتار سست ہوتی جاتی۔ دس قدم چل کر بھونچکا سا کھڑاہو گیا جیسے چوراہے پر پہنچ کر راستہ بھول گیا ہو۔ سوچ رہا تھا کہ کوئی دوسرا مزدور اس آٹے کو ضرور اٹھا لے گا۔ مجھے نہیں ملے گا اور اس کومل جائے گا۔ رفتہ رفتہ یہ خیال اتنا گہرا ہو گیا کہ مولا خیالی آٹا اٹھانے والے مزدور کو حد سے زیادہ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور یہ سوچتا ہوا آٹے کی طرف واپس آیا کہ بلا سے کوئی ہنسے تو ہنس لے، بیوی بچے تو آٹا پا کر خوش ہو جائیں گے۔ مولا کے قدم اتنی جواں مردی سے آٹے کی طرف بڑھ رہے تھے گویا وہ کسی ڈوبتے لڑکے کو دریا سے نکالنے جارہا ہے۔ آٹے کے پاس پہنچ کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اپنا انگوچھا پھیلا دیا اور آٹا اٹھانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ بڑبڑاتا جاتا تھا۔
’’کیا لوگ ہیں! اناج اس طرح پھینک دیا۔ پیروں تلے الگ آئے، نالی میں الگ جائے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ مرغی چرغی کھا لیں‘‘۔
جس بات کاڈر تھا وہی ہوئی۔ پانچ چھ مزدوروں کی ایک ٹولی پاس سے گزری اور یہ عجب تماشا دیکھ کر چار مزدور کھڑے ہو گئے۔
ایک:’’کیا مل گیا مولا‘‘۔
مولا:’’کچھ نہیں۔ خراب آٹاہے مگر ہے اناج۔ پیروں تلے آرہاتھا۔ میں نے کہا مرغی بکری کھا لیں توسوارت ہو جائے‘‘۔
دوسرا:’’کیا گلی کی پڑی ہوئی چیز! کہیںنظر گذر نہ ہو‘‘۔
پہلا:’’اٹھا لے مولا، اٹھا لے، اس کوبکنے دے، کام آجائے گا‘‘۔
مولا گردن جھکائے اپنے کام میں مشغول رہا۔ یہ لوگ چل کھڑے ہوئے۔ کچھ ہی دور پہنچ کر ایک مزدور نے تان لگائی:
’’سو سے برا توایک سے بہتر بنا دیا‘‘۔
دوسرا اس کے تان ہی کی اثنا میں بولا:
’’غریب ہی سہی مگر ہم گلی سے گرا پڑا نہیں اٹھاتے‘‘۔
یہ مزدور بڑائی کی لے رہے تھے مگر حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو مولا کی خوش نصیبی پر کہ اتنا آٹا یوں ہی پڑا مل گیا، رشک و حسد ہورہا تھا۔
اس آٹے کا بھی عجب قصہ ہوا۔
دس بجنے کے قریب تھے مگر کھانا ابھی تک تیار نہیں ہوا تھا۔ شوکت میاں اسکول جانے کو تیار تھے۔ ان کی پھوپھی نے جلدی جلدی دو چار روٹیاں ڈلوا دیں اور چار کباب تل دیے پھر جلدی سے ان کو میز پر چن، شوکت میاں کو کھانا کھانے کے لیے آواز دی، شوکت میاں ایک ہاتھ میں کتابیں لیے دوسرے ہاتھ سے شیروانی کے بٹن لگاتے کھانے کے کمرے میں گھس گئے اور بلا ہاتھ دھوئے کھانا شروع کردیا۔ مگر پہلا ہی نوالہ منہ میں رکھا تھا کہ ایسا منہ بگاڑ لیا گویا کونین پی گئے ہوں۔ جلدی سے وہ نوالہ پانی کے سہارے پیٹ میں پہنچا دیا اور پھر روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں رکھا۔ چبایا اور پھر منہ بگاڑ کر بولے:
’’پھوپھی جان! آٹا خراب ہے‘‘۔
’’آٹا خراب ہے!! کیا؟‘‘
’’شاید اکرا گیا‘‘۔
پھوپھی نے بھی روٹی کا ذرا سا ٹکڑا منہ میں رکھا، پھر بولیں:
’’تمہاری باتیں! اکرا گیا! کچھ روٹیاں جلدی پکنے سے دھواں گئیں‘‘۔
شوکت میاں نے کچھ جواب نہیں دیا۔ جلدی سے کتابیں اٹھا کر بھاگتے ہوئے باہر چلے گئے۔
بیگم صاحبہ دھوپ میں بیٹھی کچھ سی رہی تھیں۔ اپنے بیٹے کو اتنی جلدی کھانے کے کمرے سے نکلتے دیکھ کر بولیں:
’’کیا بات ہے؟‘‘
شوکت میاں کی پھوپھی:’’کچھ نہیں۔ ذرا روٹیاں دھواں گئیں‘‘۔
بیگم صاحبہ:’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ شوکت میاں کب تک فاقے سے اسکول جاتے رہیں گے۔ ذرا روٹیاں میں تو دیکھوں!‘‘
شوکت میاں کی پھوپھی ایک پلیٹ میں روٹی رکھ کر سامنے لائیں۔ بیگم صاحبہ نے ذرا سا ٹکڑا منہ میں رکھا اور بولیں:
’’یہ دھواں گئی ہیں۔ میں کہتی ہوں بہن تم کو کب عقل آئے گی۔ اکرایاہوا آٹا میرے بچے کے سامنے رکھ دیا۔ جہاں میں ذرا غافل ہوئی، بس دلدر پنا ہونے لگتاہے‘‘۔
اس فقرہ کا نشانہ پھوپھی تھیں۔ یہ بے چاری شوکت میاں کے باپ کی خالہ زادبہن تھیں۔ دس برس سے بیوہ تھیں اور ان کا یا ان کی لڑکی کا بجز اس گھر کے اور کوئی سہارا نہیں تھا۔ بظاہر تو یہ ایک غریب بہن کی طرح رکھی جاتی تھیں مگر حقیقت میں یہ ’’صدر ماما‘‘ یا نوکروں کے انچارج کی خدمات انجام دیتی تھیں اور ہر قسم کی بدنظمی کی براہ راست ذمہ دار تھیں۔ بیگم صاحبہ کا الزام سن کر بولیں:
’’اے میں نے تو بھلے کی سوچی تھی۔ چھوٹی مٹکی میں آٹا تھا۔ میں نے کہا یہ کیوں پڑا رہے۔ کام ہی آجائے‘‘۔
’’یہ نہ ہواکہ دیکھ لیتیں آٹاکیساہے؟ وہ توروٹی کی صورت سے معلوم ہوتا ہے، خیراتن‘‘۔
ان کی آواز پچیس گز کا فاصلہ طے کر کے اسی کڑک سے باورچی خانے پہنچی۔
خیراتن:’’جی بیگم صاحبہ۔۔۔پکارہی ہوں‘‘۔
بیگم صاحبہ:’’سب آٹا نالی میں پھینک دے۔ بڑے گگرے سے آٹا نکال کر پکا‘‘۔
شوکت میاں کی پھوپھی اس حکم کی تعمیل کرانے دوڑیں اور باورچی خانے میں آکر بڑبڑانے لگیں۔
’’نالی میں پھینک دو۔ نالی میں پھینک دو۔ سچ ہے کہ جب چیزہوتی ہے تواس کی قدر نہیں ہوتی۔ اناج بڑی چیز ہے بہن، بڑی چیز‘‘۔
خیراتن:’’ہاں گندھا گندھا یاآٹا۔ سب محنت اکارت‘‘۔
شوکت میاں کی پھوپھو:’’تم پھینکو وینکو نہیں۔ لیتی جائو بکری کوکھلا دینا۔ ہاں اوردیکھ مٹکی میں ابھی ڈھائی سیر آٹا ہوگا۔۔ دو آنے دس پیسے کا مال ہے۔ وہ بھی تم لیتی جائو۔ میں پھینکوا کرکیاکروں گی‘‘۔
حیراتن چاہتی توتھی کہ آٹالے جائے مگر یہ سوچ کرکہ پھوپھی مری بچھیا برہمن کے نام کرکے احسان کرنا چاہتی ہیں۔ بولی:
’’ہاں آٹا لے جا کر کسی کونے میں ڈال دوں گی۔ پیروں تلے نہ آئے۔ اب ہے کس کام کا ‘‘۔
پھوپھی نے اس ڈرسے زیادہ باتیں نہیں کیں کہ کہیں خیراتن آٹالے جانے سے بالکل ہی انکارنہ کردے اور اس طرح ذرا سا احسان کرنے کا جو موقع مل رہا ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ فوراً کوٹھڑی کے اندر جا کر آٹا اپنے ایک میلے دوپٹے میں باندھ لائیں اوربولیں:
’’ذرا دوپٹے کا خیال رکھنا۔ پھٹنے نہ پائے اورشام ہی کو اپنے ساتھ لیتی آنا‘‘۔
خیراتن نے پوٹلی کی طرف ایک نظر ڈالی اور جیسے کام کر رہی تھی کرتی رہی۔ جب گھر جانے لگی تو پکی ہوئی روٹیاں۔ گوندھا ہوا آٹا اور آٹے کی پوٹلی سب سامان لے کر گھر آئی۔ خیراتن کی بڑی لڑکی نے، جوشوہر سے لڑائی ہونے کی وجہ سے مستقل ماں کے پاس رہتی تھی، اس سامان کا حال پوچھا ۔ جب خیراتن نے قصہ بیان کیا تواس نے روٹی چکھی اور پھر بولی:
’’کھانے کے قابل نہیں۔ کڑواہوگیا‘‘۔
’’بکری کھا لے گی‘‘۔
’’اس کادودھ نہ گھٹ جائے گا؟‘‘
خیراتن نے اٹھ کر روٹیاں بکری کے سامنے ڈال دیں۔ اس نے ایک روٹی توکھا لی مگراس کے بعد منہ ہٹا لیا۔ پھرا ن لوگوں نے لاکھ چمکارا مگر وہ ادھر متوجہ بھی نہیں ہوئی اورہوتی کیسے؟ وہ توبیگم کے یہاں کے بچے کھچے مرغن کھانوں پر پلی تھی۔ اس وقت بھی پیٹ اسی سے بھرا تھا۔
اب خیراتن سوچ میں پڑ گئی کہ آخر آٹے کا مصرف کیا ہو۔ بیٹی نے تجویز پیش کی۔
’’دلارے کی نظر اتار کر چوراہے پر ڈال دو‘‘۔
یہ تجویز معقول تھی۔ اگرآدھ سیر تک آٹا ہوتا تواس پر ضرور عمل کیاجاتا مگراک دم سے ڈھائی سیر آٹا اس طرح پھینکنے پر خیراتن کے دل نے گواہی نہیں دی۔
رات کو جب خیراتن کام کاج سے واپس آئی اور اطمینان سے کھانا کھا کر لیٹی تو یہ مسئلہ اٹھا کہ آٹے کا کیا ہو۔ دوستوں اورعزیزوں کی فہرست دہرائی مگرکوئی کام آتاشخص نظر نہ آیا۔ صبح ایک فقیر نے صدا لگائی۔ خیراتن نے موقع غنیمت جانا اور فوراً پائو بھر آٹا نکال کر بھیک دینے لگی۔ فقیر تھا شہر کا۔ آٹا دیکھ کر بولا:
’’مائی فقیر کو خراب چیز نہ دیاکرو۔ اللہ بھلاکرے‘‘۔
یہ کہہ کر چلتاہوا۔ خیراتن آٹا لیے بڑبڑاتی اندرآئی۔
’’موئے موٹے فقیر۔ بھیک مانگنے چلے ہیں‘‘۔
اب پھر وہی مسئلہ۔ آٹے کا کیاہو؟ سہ پہر کو ایک عورت دو بچوں کو ساتھ لیے ان کے گھر میں آئی اور اس نے اپنی کتھا یوں سنائی:
’’میںکوئٹہ کی رہنے والی ہوں۔ زلزلے میں میرا سب کچھ تباہ ہو گیا۔ میرے باغ تھے۔بڑے بڑے مکانات تھے۔ شوہر اور لڑکے تھے مگر سب تباہ ہو گئے اور میں دکھیادر بدرگھوم رہی ہوں‘‘۔
خیراتن کو اوراس کی بیٹی کو ان تینوں کے حال پربڑاترس آیا اور سب آٹا اٹھا کر یکمشت ان لوگوں کودے دیا۔ عورت غریب ان آدمیوں سے خلاف توقع اتنا آٹا پاکر متعجب ہوئی مگرعورت تھی۔ ان عورتوں کے خلوص میں اس کو شک ہوا۔ ذرادور، گلی میں جا کراس نے پوٹلی کھولی اور جب حقیقت معلوم ہوئی تو خوب بڑبڑائی ، کوسنے دیے اور آٹا گلی میں ڈال کر چلتی ہوئی۔ اس کوخراب آٹے کی کیا پرواہ ہوتی؟ اس کی جیب میں آج کی تحصیل کے روپیہ کھنک رہے تھے۔
شام کے وقت منی مولا کاانتظارکررہی تھی اور ببو اس کے کندھے سے لگاریں ریں کررہا تھا۔
’’اماں بھوک لگی ہے، اماں بھوک لگی ہے‘‘۔
منی:’’دوپہر کو تمہیں اور منو کو برابرکی ٹکیاں دی تھیں۔ دیکھو وہ کہاں روتاہے‘‘۔
منو ایک لال کنکوے کا پھٹا کاغذ سرپرلپیٹے ایک لکڑی ہاتھ میںلیے سپاہی بنا ٹہل رہاتھا۔ یہ سن کر بولا:
’’اماں کل اورکم دینا۔ تب بھی ہم نہیں روئیں گے‘‘۔
منی:’’اب بتا ببو۔ وہ دیکھو کتنا اچھا لڑکاہے‘‘۔
ببو غیرت میں آکرخاموش ہو گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی ریںریں کرنے لگا۔ اب منی کہنے لگی:
’’رو نہیں۔ دیکھو تمہارے ابا آتے ہوں گے اور تمہارے لیے چیز لاتے ہوں گے‘‘۔
اتنے میں مولا آٹے کا پوٹلا لیے کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ منی نے پوٹلا کھولا اور دیکھ کر حیرت سے بولی:
’’گیہوں کا آٹا۔۔۔۔ کہاں ملا؟‘‘
جب سے مولا بیمار تھا ان لوگوں نے گیہوں کی روٹی نہیںکھائی تھی۔ اسے دیکھ کر سب خوش ہو گئے۔
مولا:’’مل گیا۔ دیکھو کتنا ہے؟‘‘
منی دوڑ کر کہیں سے ترازو مانگ لائی اور آٹا تولنے کے لیے بیٹھی۔ ایک سیر تولا اور اس کو ایک کپڑے میں رکھ دیا پھر دوسری بار ترازو بھرا۔ نتیجہ دیکھنے کو سب انتہائی ذوق و شوق سے منتظر تھے جیسے لڑکے اسکول میں امتحان کا نتیجہ سننے کے۔ آخر منی بولی:
’’سوا دو سیر سے کم نہ ہوگا۔ کتنا اچھا آٹا ہے۔ چل چھوکری۔ دیکھ اس کے گھن چن۔پہلے چراغ جلا۔ اندھیرا بہت ہے‘‘۔
ایک لڑکی نے دوڑ کر ایک میلی سی لالٹین اٹھا کر جلائی اور پھر دونوں بیٹھ کر گھن چننے لگیں۔ دونوں چھوٹے لڑکے غل مچانے لگے۔
’’گیہوں کا آٹا۔۔ گیہوں کا آٹا‘‘۔
منی تھوڑی دیر چپ رہی، پھر چلا کر بولی:
’’چپ رہو کم بختو،کان پھاڑے ڈالتے ہو‘‘۔
اس کے بعد خاموشی طاری ہو گئی۔ تھوڑی دیر تک چھوٹی لڑکی کے کھانسنے کی آواز یا بڑی لڑکی کے بدن کھجلانے کی کھرکھر کے سوا کوئی آواز نہ آئی۔ پانچ منٹ بعد منی نے حکم سنایا۔
’’بس اب صاف ہو گیا۔ آدھا آٹا کل کے لیے رکھ دو‘‘۔
مولا:’’اب رکھوگی کیا۔ آج ہی پکا لو۔ سب جی بھر کے کھا لیں‘‘۔
دونوں لڑکے: ’’ہاں، ہاں۔۔۔۔میری اماں‘‘۔
منی آٹا گوندھنے لگی۔ آٹے میں اب بھی گھن موجود تھے۔ انہیں دیکھ کر اسکو کچھ شک ہوا۔ اس نے آٹا نکال کر چکھا پھر ذرا منہ بنا کر بولی:
’’نمک ڈال کر پکانے والاہے۔ دو پیسے کاتیل لے آئو تو آج پوریاں پکیں۔ دو پیسے کے آلو بھی لے آئو۔۔۔۔ ارے لڑکو، ذرا جا کر بفاتی کے یہاں سے کڑاہی تو لانا‘‘۔
دونوں لڑکے بے تابانہ کڑاہی لینے دوڑے اور ان کے پیچھے چھوٹی لڑکی چلی۔ مولا بنیے کے یہاں سامان خریدنے گیا۔ ذرا دیر میں لڑکی کڑاہی لے کر آ پہنچی اور پیچھے پیچھے دونوں لڑکے چیختے ہوئے:
’’ہم لے جائیں گے۔ ہم لے جائیں گے‘‘۔
منی نے کوٹھڑی کے باہر نکل کر کڑاہی مانجی۔ مولا لکڑی وغیرہ لے کر آیا۔ لڑکیوں نے آگ بنائی۔ سب لڑکے چولہا گھیر کر بیٹھے اورکڑاہی چڑھائی گئی۔ منی نے ایک مٹی کی رکابی میں ایک بڑی سی روٹی بنائی۔ کڑاہی میں دو قطرے تیل ڈالا۔ جب وہ کڑ کڑانے لگا تواس نے روٹی ڈال دی۔ وہ چر سے بولی۔ تیل کی بو کوٹھڑی میں پھیل گئی۔ لڑکے کھانسنے لگے۔ پوریاں پکتے دیکھ کر سب کے چہروں پر بحالی آ گئی۔
منو:’’آہاہا۔ کیسی اچھی خوشبو نکلی‘‘۔
منی نے روٹی دوسری طرف الٹی۔
منو:’’کیسی لال لال۔ اماں یہ ہم کھائیں گے‘‘۔
ببو:’’نہیں ہم ۔ ہم‘‘۔
منی نے پوری اتاری، پھر کڑاہی میں دو قطرے ٹپکائے اور دوسری پوری ڈال دی۔ اسی طرح اس نے ایک گھنٹے میں دھیمی دھیمی آنچ میں سب پوریاں نکال لیں۔ کھانے میں بہت دیر ہو گئی تھی مگر خوشی میں کسی کو محسوس نہیں ہوا۔ پوریاں پکا کر منی چلائی:
’’ارے آلو لائو۔ آلو لائو۔کسی نے ابھی تک کاٹے ہی نہیں، میں کہتی ہوں یہ چھوکریاں کسی کام کی نہیں۔ سب کھڑی تماشا دیکھ رہی ہیں‘‘۔
جلدی جلدی آلوکے پتلے پتلے قتلے کاٹے گئے اور پھر کڑاہی میں پکنے کے لیے چڑھا دئیے گئے۔ یہ انتظار بے شک کھل گیا۔ سب خاموش بیٹھے چولہے کو تاک رہے تھے۔ صرف کھانسی کی آواز خاموشی توڑ دیتی تھی۔ آخر آلو تیار ہو گئے۔تیار کیا ہوگئے ذرا ملائم پڑ گئے۔ منی نے مٹی کی رکابیاں نکالیں اور سب میں دو دو پوریاں اور ان پر تھوڑے تھوڑے آلو رکھ کر سب کے سامنے بڑھا دیئے۔ اب جوان لوگوں نے خیال کیا توببو سو رہا تھا۔
منی:’’ببو اٹھ، اٹھ، دیکھ پوریاں تیار ہو گئیں‘‘۔
لڑکیاں:’’اے ببو۔ببو‘‘۔
ببو آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور رونے کی نیت سے پورامنہ کھول کر ایک چیخ لگائی مگر ابھی چیخ پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس کی نگاہ پوریوں پر پڑ گئی۔ جن کو دیکھ کر رونا بھول گیا۔ سب ہنس ہنس کر پوریاں کھانے لگے۔
منو:’’اہاہا۔ کتنے مزے کی ہیں‘‘۔
چھوٹی لڑکی:’’اماں سالن ہوتا!‘‘
بڑی لڑکی:’’ہاں اور پلائو متنجن نہ ہوتا۔ گدھی‘‘۔
پھر خاموشی ہوگئی۔ یہ لوگ خوب مزے لے لے کر کھا رہے تھے جس سے اچھا خاصا شور پیدا ہوگیا تھا۔ جب پوریاں ختم ہو گئیں تومنی نے آدھی آدھی سب کواوردیں اور خود بھی لی۔ اب مولانے آٹا ملنے کا قصہ بیان کیا۔ اس پر منی بولی یہ بھی خدا کی دین ہے۔ میں ببو سے کہہ رہی تھی کہ آج تمہارے ابا چیزلاتے ہوں گے۔
ببو:’’اماں ہم گرما گرم پوری والے بنیں گے اور خوب پوریاں کھائیں گے‘‘۔
منو:’’ہم سپاہی بنیں گے اور سب کو پکڑ پکڑ کر جیل خانے بھیجا کریں گے‘‘۔
ببو:’’ہم تم کو پو ریاں نہیں دیں گے‘‘۔
منو:’’ہم تم کو خوب پیٹیں گے اور پکڑ کر تھانے میںبند کر دیں گے‘‘۔
ببو:’’ہم۔۔۔۔ہم تمکو‘‘۔
ببو کی سمجھ میں نہیں آیا، کہ کیاکہے۔ ان نے منو کا منہ چڑھادیا۔ اس پر منو نے ایک گھونسا رسید کیا۔ مولانے دونوں کو ڈانٹا۔
’’کم بختو ! آج توخوب ٹھونس ٹھونس کر کھایا ہے ، آج تو چپ رہو‘‘۔
دونوں خاموش ہوگئے۔ مولابولا:
’’خدا ایساہی روز پیٹ بھردے‘‘۔
جب یہ لوگ سونے لیٹے تو ببو بولا:
’’اماں، آج توکہانی کہو‘‘۔
لڑکیاں: ’’ہاں، ہاں۔۔۔۔ بادشاہ زادے والی‘‘۔
منی کی بھی طبیعت مگن تھی۔ وہ کہنے لگی:
’’ایک تھا بادشاہ۔۔۔۔ ہمارا تمہارا خدابادشاہ۔۔۔۔‘‘